Pages

Monday, 2 June 2014

" جو غمِ حبیب سے دور تھے وہ خُد اپنی آگ میں جل گئے



" جو غمِ حبیب سے دور تھے وہ خُد اپنی آگ میں جل گئے ،

جو غمِ حبیب کو پا گئے وہ غموں سے ہنس کے نِکل گئے "

جو تھکے تھکے سے تھے حوصلے وہ شباب بن کہ مچل گئے

وہ ںظر نظر سے گلے مِلی تو بُجھے چراغ بھی جل گئے۔

یہ شکستِ دید کی کروٹیں بھی بڑی لطیف و جمیل تھیں،

میں نظر جُھکا کہ تڑپ گیا وہ نظر بچا کہ نِکل گئے۔

نا خزاں میں ہے کوئی تیرگی، نا بہار میں ہے کوئی روشنی۔۔
۔۔
یہ نظر نظر کہ چراغ ہیں ، کہیں بُجھ گئے کہیں جل گئے

No comments:

Post a Comment